سوال:
سفر کی دعا کیا ہے، قرآن کریم نے کس دعا کی ترغیب دلائی ہے اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر میں کون سی دعا پڑھتے تھے اور سفر میں دعا پڑھنے کا مقصد
کیا ہے؟
جواب:
سفر کی دعا یہ ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا
لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ
اس کا ترجمہ یہ ہے:
پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری
کو ہمارے بس میں دے دیا، ورنہ ہم میں سے یہ طاقت نہیں تھی کہ اس کو قابو میں لاسکتے
اور بیشک ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
قرآن کریم نے اسی کی ترغیب دلائی ہے، قرآن کریم میں ہے: جب تم سواری پر سوار
ہو جاؤ تو یہ دعا پڑھو،(سورت الزخرف، سورت نمبر ترتالیس، آیت نمبر تیرہ اور چودہ)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سفر میں یہ دعا پڑھتے تھے اور اس کے ساتھ کچھ جملوں کا اضافہ بھی کرتے تھے، جن کی
وجہ سے اس دعا کی افادیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
جامع الاصول میں ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر پر جانے کے ارادے سے سواری پر ٹھیک
سے بیٹھ جاتے تو اللہ تعالی کی حمد و تسبیح کرتے، پھر تین بار اللہ اکبر کہتے، اس
کے بعد یہ دعا مانگتے تھے۔
پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لیے اس
سواری کو مسخر کر دیا حالانکہ ہم اس کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، بے شک ہمیں اللہ
ہی کی طرف لوٹ کرجانا ہے، اے اللہ ! ہم اس سفر میں نیکی، تقوی اور جو عمل تجھے
پسند ہے، اس کا سوال کرتے ہیں۔
اے اللہ ! ہم پر یہ سفر آسان کر دے، اس کی دوری کو ہمارے لیے آسان کر دے، اے اللہ ! تو سفر میں ہمارا ساتھی اور ہمارے اہل و عیال میں ہمارا قائم مقام ہے۔
اے اللہ میں سفر کی تکلیف و مشقت، تکلیف دہ منظر، اہل و عیال اور مال کی طرف ناکام لوٹنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (یہ دعا صحیح مسلم میں بھی ہے)
سفر کی دعا کے عربی الفاظ یہ ہیں:
سبحان الذي سَخَّرَ لنا هذا
وما كنا له مُقْرِنين وإنا إلى ربِّنا لمنقلبون
اللَّهمَّ إنا نسألك في سفرنا هذا البِرَّ والتقوى، ومن العمل ما تَرْضى، اللَّهمَّ
هَوِّن علينا في سفرنا هذا، واطوِ عَنَّا بُعْدَ الأرض، اللَّهمَّ أنت الصاحبُ في السفر،
والخليفةُ في الأهلِ، اللَّهمَّ إني أعوذ بك من وْعثاءِ السفر، وكآبَةِ المنْظَرِ،
وسوءِ المُنْقَلَبِ في الأهل والمال
سفر کی دعا کی حکمت:
اس دعا کا مقصد اللہ تعالی کے ساتھ بندگی کے تعلق کو مضبوط کرنا ہے، اس دعا میں سب سے پہلے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ
یا اللہ یہ سواری تیری ہی وجہ سے ہمارا کہنا مان رہی ہے، ورنہ ہماری کیا اوقات کہ
ہم کسی جانور، کشتی، بائیک یا گاڑی کو اپنے تابع فرمان کر سکیں، یہ سب کچھ تیری ہی
عطا کردہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہے، اگر تیری رحمت شامل حال نہ ہو تو ایک منٹ میں
جانور سرکش ہوسکتا ہے، بائیک اور گاڑی ہمارے کنٹرول سے باہر نکل سکتی ہے لیکن تیری
رحمت ہے جو اسے ہمارے تابع کیے ہوئے ہے۔
اس دعا میں ہم اس چیز کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ یا اللہ اگر تیری رحمت شامل حال نہ ہوتو ہم سفر میں تکلیف دہ منظر دیکھ سکتے ہیں، بہت سخت مشقتیں اٹھا سکتے ہیں،واپسی پر اہل و عیال اور مال کی پریشانی کا سامنا کر سکتے ہیں۔
پھر اللہ تعالی کی بارگاہ میں درخواست کرتے ہیں کہ یا اللہ! تو سفر میں ہمارا ہمسفربن اور ہمیں سفر کی
پریشانیوں سے بچا، تو ہمارے اہل و عیال میں ہمارے قائم مقام کے طور
پر رہ، ان کی حفاظت کر، انہیں زمینی و آسمانی آفات اور دشمنوں سے
بچا۔
از
احسان اللہ کیانی
پندرہ، نومبر۔ دو ہزار بائیس
مزید یہ بھی دیکھیے:
COMMENTS