امام کے پیچھے قرات کے بارے میں حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب تم میں سے کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اسے امام کی قرات ہی کافی ہے (یعنی خود قرات نہ کرے)۔ (یہ حدیث موطا امام مالک میں ہے)۔
جب امام قرات کرے تو خاموش رہو۔ (یہ حدیث آثار السنن میں ہے اور یہ حدیث صحیح ہے)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جس نے نماز کی کوئی رکعت پڑھی اور اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز نہیں ہوئی، سوائے اس صورت میں کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ (یہ حدیث آثار السنن میں موطا امام مالک کے حوالے سے منقول ہے، اس کی اسناد صحیح ہے)
حدیث شریف میں ہے:
فَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا
ترجمہ:
جب امام قرات کرے تو خاموش رہو۔
(شرح معانی آلاثار)
حدیث شریف میں ہے:
مَنْ کَانَ لَہُ إِمَامٌ فَقِرَاء َۃُ الْإِمَامِ لَہُ قِرَاء َۃٌ
ترجمہ:
جس کا امام ہو ،تو امام کی قرات ہی اس کی قرات ہے۔
(شرح معانی الآثار)
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: یَکْفِیکَ قِرَاء َۃُ الْإِمَامِ
ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ تمھیں امام کی قرات ہی کافی ہے۔
(شرح معانی الآثار)
إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُہُ قِرَاء َۃُ الْإِمَامِ وَکَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ
ترجمہ:
جب تم میں سے کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اسے امام کی قرات ہی کافی ہے ،عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما امام کے پیچھے قرات نہیں کرتے تھے۔
(شرح معانی الآثار)
قرات خلف الامام کے قائلین کے دلائل اس قسم کی احادیث ہیں
حدیث شریف:
کُلُّ صَلَاۃٍ لَمْ یُقْرَأْ فِیہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَہِیَ خِدَاجٌ
ترجمہ:
ہرنماز جس میں ام القرآن کی قرات نہ کی جائے وہ ناقص ہے۔
(شرح معانی الآثار)
ہم بھی اس حدیث پر عمل کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکم اکیلے نماز پڑھنے والے کیلئے ہے، اس تخصیص کی دلیل بھی دوسری حدیث میں موجود ہے۔
مَنْ صَلَّی رَکْعَۃً , فَلَمْ یَقْرَأْ فِیہَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ , فَلَمْ یُصَلِّ إِلَّا وَرَاء َ الْإِمَامِ
ترجمہ:
جس نے نماز کی کوئی رکعت پڑھی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو اس نے گویا وہ رکعت نہیں پڑھی ،سوائے اس کہ جو امام کے پیچھے نماز پڑھے۔
(شرح معانی الآثار)
اگر یہ موقف رکھا جائے کہ اکیلے کیلئے فاتحہ لازمی ہے اور امام کے پیچھے امام کی قرات ہی کافی ہے تو دونوں طرح کی احادیث پر عمل ہو جائے گا، یہی علمائے احناف کا طریقہ ہے کہ وہ ایسی صورت نکالتے ہیں جس میں تمام احادیث پر عمل ہو جائے۔
اگر کوئی فاتحہ کی فرضیت کا قائل ہے تو اس سے ہمارا سوال ہے کہ اگر کوئی شخص رکوع میں امام کے ساتھ ملے تو اسے رکعت کیوں مل جاتی ہے حالانکہ اس نے فاتحہ نہیں پڑھی ہوتی ۔
نماز میں ہاتھ باندھنے کا سنت طریقہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
السنۃ وضعُ الکف علی الکف فی الصلاۃِ تحتَ السُرۃ
سنت یہ ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے جائیں۔ (یہ حدیث سنن ابوداؤد میں ہے)۔
یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتوے کی مانند ہے۔
حضرت وائل بن حجر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا، وہ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھتے تھے۔ (یہ حدیث آثار السنن میں ہے، اس کی اسناد صحیح ہے)
رفع یدین کے بارے میں حدیث
حضرت علقمہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والی نماز نہ پڑھاؤ، پھر آپ نے نماز پڑھائی تو آپ نے صرف ایک مرتبہ ہی رفع یدین کیا تھا۔ (یہ حدیث آثار السنن میں ہے اور یہ حدیث صحیح ہے)۔
عن علقمۃ قال :قال عبد اللہ بن مسعود :الا اصلی بکم صلاۃ رسول اللہ فصلی ،فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ
ترجمہ :
حضرت علقمہ روایت کرتے ہیں ،کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کیا میں تمھیں حضور ﷺکی نماز جیسی نمازنہ پڑھائوں ؟پھر انھوں نے نماز پڑھائی ،اور سوائے پہلی مرتبہ (یعنی تکبیر تحریمہ ) کے پھر ہاتھ نہیں اٹھائے ۔
(سنن ترمذی )
امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن ہے
ابن حزم ظاہری نے المحلی میں اسے صحیح کہا
ابن ترکمانی کہتے ہیں اس کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں
حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز کی پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے اور پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے۔ (یہ حدیث آثار السنن میں ہے اور اس کی اسناد صحیح ہے)۔
امام مجاہد سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے پیچھے نماز پڑھی وہ صرف پہلی رکعت میں ہی رفع یدین کرتے تھے۔ (یہ حدیث آثار السنن میں ہے، اس کی سند صحیح ہے)۔
عن البراء : أن رسولَ اﷲؐ کان إذا افتَتَحَ الصلاۃَ رفعَ یدیہِ إلی قریبِ من أُذُنَیہ، ثم لا یعودُ
ترجمہ:
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کانوں کے قریب تک ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر باقی نماز میں ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔
(اخرجہ ابو داؤد فی السنن،کتاب الصلوۃ ،باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع،رقم الحدیث :٧٥٠)
یعنی صرف ایک بار رفع یدین کرتے تھے۔
خلفاء راشدین سے پہلی تکبیر کے علاوہ رفع یدین ثابت نہیں ہے۔ (آثار السنن)
آمین آہستہ کہنے کی حدیث
عن علقمۃ بن وائل عن ابیہ ،انہ صلی مع رسول اللہ فلما بلغ (غیر المغضوب علیھم والضالین )قال :آمین و اخفی بھا صوتہ
ترجمہ :
علقمہ اپنے والد وائل بن حجر سے نقل کرتے ہیں ،کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ،جب آپ (غیر المغضوب علیھم والضالین ) پر پہنچے ،تو آپ نے "آمین " آہستہ آواز سے کہی
(مسند احمد ،مستدرک )
امام حاکم فرماتے ہیں :اس کی سند صحیح ہے
تین رکعت وتر کی دلیل
تراویح کی رکعات کی تعداد :
نمازوں کو جمع کرنا
یہ اس دور کےچند اختلافی مسائل تھے، اب بالترتیب نماز والی احادیث جمع کر رہے ہیں۔
تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں حدیث
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کیلئے تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ کانوں کی لو کے برابر تک بلند کرتے تھے۔(یہ حدیث آثارالسنن میں ہے، صحیح مسلم کے حوالے سے روایت کی گی ہے)۔
ثناء کے بارے میں حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو یہ پڑھتے تھے، سبحانک اللھم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالی جدک ولا الہ غیرک۔ (اسے امام دارقطنی اور امام طحاوی نے روایت کیا ہے، اس کی اسناد صحیح ہیں)۔
الحمد للہ اور بسم اللہ کے بارے میں حدیث
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز کو الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے، وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔ (یہ دو حدیثوں کا خلاصہ ہے، یہ دونوں احادیث امام نیموی کی آثار السنن سے لی گئی ہیں)۔
سورت فاتحہ اور قرآن کی تلاوت کے بارے میں حدیث
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ ہم (نماز میں) سورت فاتحہ پڑھیں اور اس کے ساتھ جو (قرآن سے) آسانی سے میسر ہو۔ (یہ حدیث آثار السنن میں ہے، وہاں یہ صحیح ابن حبان کے حوالے سے درج ہے، اس کی اسناد صحیح ہیں)۔
سجدے کے بارے میں حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے کے دوران اپنا مبارک چہرہ دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھتے تھے۔ (یہ حدیث شریف شرح معانی الآثار میں ہے)۔
نماز بھولنے کا کفارہ
مَنْ نَسِیَ صَلَاۃً أَوْ نَامَ عَنْہَا فَکَفَّارَتُہُ أَنْ یُصَلِّیَہَا إِذَا ذَکَرَہَا
ترجمہ:
جو نماز پڑھنا بھول گیا یا نیند کی وجہ سے نماز رہ گئی تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب اسے یاد آئے فور نماز پڑھ لے۔
(بخاری ،مسلم)
مزید کس عنوان پر آپ احادیث چاہتے ہیں، کمنٹ میں بتائیں۔
COMMENTS