معراج کا معنی
معراج کا لغوی معنی لفٹ اور سیڑھی ہوتا ہے ۔
معراج النبی کا معنی
معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد وہ سفر ہے جس میں آپ نے زمین سے بلندیوں تک کا سفر کیا۔
شب معراج
شب معراج اس رات کو کہتے ہیں، جس رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین سے آسمانوں تک کا سفر کیا ۔
معراج کا واقعہ کب پیش آیا
معراج کا واقعہ مشہور قول کے مطابق ستائیس رجب کو پیش آیا۔
معراج جسمانی یا روحانی
رسول اللہ ﷺ کی معراج جسمانی تھی ،علامہ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ امت کی اکثریت کا یہی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی معراج جسمانی تھی الحمدللہ پاکستان انڈیا میں بھی بریلوی دیوبندی اکابر علماء کا اتفاق ہے کہ معراج جسمانی تھی ۔
معراج جسمانی کا ثبوت
معراج جسمانی کے چنددلائل یہ ہیں:
۱۔ اگر یہ صرف خواب کی بات تھی تو پھر معجزہ کیسے ہوئی کیونکہ خواب میں تو کوئی بھی شخص کچھ بھی کر سکتا ہےجبکہ اس کے برعکس معجزہ تو وہ ہوتا ہے جو کوئی دوسرا کرنے پر قادر نہیں ہوتا ۔
۲۔ اگر یہ معاملہ صرف خواب کا ہوتا تو کفار مکہ اسے ماننے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتےحالانکہ انہوں نے تو حضور ﷺ سے بیت المقدس کے متعلق بہت سے سوالات بھی کیے ،اللہ تعالی نے بیت المقدس کو حضور ﷺ کے سامنے کر دیا اور آپ نے دیکھ کر سب کچھ بتا دیا بلکہ یہ واقعہ تو اتنا حیرت انگیز تھا کہ بہت سے کمزورمسلمانوں کو اس پر یقین نہیں آیا اور وہ مرتد ہو گئےجبکہ اس کے برعکس اس کی تصدیق کرنے پر ہی حضرت ا بو بکر کو صدیق کا ٹائٹل ملا تھا۔
۳۔ یہ سفر براق پر ہوا ، اگر یہ صرف روحانی سفر تھا تو براق کی کیا ضرورت تھی ۔
۴۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جب اس سفر کو ذکر فرمایا ہے تو لفظ سبحان ارشاد فرمایا ہے ،اگر یہ خواب کا معمولی واقعہ تھا تو یہاں لفظ سبحان استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ،اسی طرح معراج کے تذکرے میں لفظ عبد کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ جسم اور روح دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے ۔
۵۔ قرآن کریم نے فرمایا معراج کے تذکرہ میں فرمایا ہے کہ جو آنکھ نے دیکھا دل نے اس کو جھٹلایا نہیں اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا تو وہاں آنکھ سے دیکھنے کا ذکر نہ ہوتا کیونکہ خواب میں آنکھ نہیں دیکھتی ۔
ایک مسلمان کو یہی عقیدہ رکھنا تھا ،اس میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت و شان کا اظہار بھی ہے اور سائنسی ترقی کے اس دور میں یہ ایسا معجزہ ہے جس کے سامنے سائنس بھی سرجکھائے کھڑی ہے ۔
معراج اور اسراء
معراج اور اسراء میں فرق ہے، اسراء سے مراد وہ صفر ہے جو آپ علیہ السلام نے مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کیا اور معراج سے مراد وہ صفر ہے جو زمین سے سدرۃ المنتھی سے اوپر تک ہوا۔
اسراء کا ذکر قرآن میں
قرآن کریم میں ہے کہ پاک ہے وہ ذات جو راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی۔ (سورۃ الاسراء، سورت نمبر سترہ، آیت نمبر ایک)
معراج کا ذکر قرآن میں
سورت نجم کی ابتداء میں ہی اس کا ذکر کیا گیا ہے، آپ پہلی بیس آیات پڑھ لیں۔
معراج النبی کا پس منظر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آچکے تھے،ا س لیےا ٓپ نے سوچا کہ طائف کے لوگوں کو دعوت دیتا ہوں، اگر انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو کچھ ظاہری مدد گار مل جائیں گے، آپ علیہ السلام وہاں گئے تو انہوں نےا ٓپ علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے کے بجائے، آپ کا مذاق اڑایا بلکہ آپ کے پیچھے آوارہ لڑکے لگادیے، جو آپ پر آوازیں کستے تھےا ور آپ کو پتھر مارتے تھے،پہلے مکہ کی پریشانی تھی اور اب طائف کی پریشانی تھی،اس سے نکالنے کیلئے اللہ تعالی نےا ٓپ علیہ السلام کو معراج کروائی تاکہ آپ کو حوصلہ ملے اور آپ کی پریشانی میں کمی آئے۔
شب معراج کا واقعہ
ہم نے جان بوجھ کر یہ واقعہ جامعہ بنوریہ کی ویب سائٹ سے لیا ہے تاکہ دیوبندی اور بریلوی حضرات کے درمیان دوریاں کچھ کم ہو سکیں۔
COMMENTS